جکارتہ (نیوز ڈیسک) موت ہر انسانی معاشرے میں غم و الم کا استعارہ ہے اور اس پر دکھ کا اظہار مختلف رسوم کی شکل میں کیا جاتا ہے، البتہ بعض معاشروں میں یہ رسوم انتہائی بھیانک ہیں۔ انڈونیشیاءکے انتہائی مغرب میں نیو گنی کے جنگلوں میں بسنے والا الگ تھلگ دانی قبیلہ بھی ایک ایسی ہی مثال ہے کہ جہاںکسی شخص کی موت اس کی رشتہ دار خواتین کے لئے ایک ایسے دردناک عذاب کا سبب بنتی ہے کہ جسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔
میل آن لائن کی رپورٹ کے مطابق اس قبیلے میں صدیوں سے یہ رسم چلی آرہی ہے کہ گھر کے کسی مرد کی وفات پر اس کی قریبی رشتہ دار خواتین اپنی انگلی کی بالائی پور کاٹ لیتی ہیں۔ یہ ظلم صرف عورتوں کو سہنا پڑتا ہے اور جب بھی ان کے کسی قریبی مرد کی موت ہوتی ہے تو انہیں ایک انگلی کی اوپر والی پور کاٹنی پڑتی ہے۔ اس قبیلے میں ایسی درجنوں معمر خواتین ہیں کہ جن کے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں کٹی ہوئی ہیں، جبکہ دو، چار کٹی ہوئی انگلیوں والی خواتین تو عام دیکھنے کو ملتی ہیں۔
میل آن لائن کی رپورٹ کے مطابق اس قبیلے میں صدیوں سے یہ رسم چلی آرہی ہے کہ گھر کے کسی مرد کی وفات پر اس کی قریبی رشتہ دار خواتین اپنی انگلی کی بالائی پور کاٹ لیتی ہیں۔ یہ ظلم صرف عورتوں کو سہنا پڑتا ہے اور جب بھی ان کے کسی قریبی مرد کی موت ہوتی ہے تو انہیں ایک انگلی کی اوپر والی پور کاٹنی پڑتی ہے۔ اس قبیلے میں ایسی درجنوں معمر خواتین ہیں کہ جن کے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں کٹی ہوئی ہیں، جبکہ دو، چار کٹی ہوئی انگلیوں والی خواتین تو عام دیکھنے کو ملتی ہیں۔
یہ قبیلہ صدیوں سے باقی دنیا سے کٹا ہوا ہے۔ اسے پہلی دفعہ 1938ءمیں امریکی تحقیق کار رچرڈ آرک بولڈ نے دریافت کیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جدید دنیا کے انسان نے دانی قبیلے کو پہلی بار دیکھا۔ یہ لوگ آج بھی لباس کی قید سے آزاد ہیں۔ خواتین صرف بناﺅ سنگھار کے لئے اپنی کمر کے گرد پھول، پتے باندھتی ہیں جبکہ مرد ایک مخصوص شکل کا خوفزدہ کردینے والا انڈرویئر پہنتے ہیں۔ ”کوٹکا“ کہلانے والا یہ مردانہ انڈرویئر ایک لمبوتری قسم کی لکڑی ہوتی ہے جسے اندر سے کھوکھلا کرکے جسم کا مخصوص حصہ ڈھانپنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
No comments:
Post a Comment