اب یہ کہنا ممکن ہے کہ زمین سے ہٹ کر زندگی کے لیے ضروری تمام اجزاء ہمارے نظام شمسی میں ایک جگہ موجود ہیں اور وہ ہے زحل کا چاند انسلداس۔
جی ہاں ہمارے نظام شمسی کا وہ چاند جو برف کی ایک چھوٹی گیند کی طرح نظر آتا ہے۔
درحقیقت اس کی برفانی تہہ کے نیچے پانی کا ایک سمندر موجود ہے جسے اس چاند کی اپنی کشش کے زور کی وجہ سے گرمائش مل رہی ہے اور ایسے کیمیائی عناصر اس میں موجود ہیں جو زندگی کے لیے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ یہ دریافت ایک پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر نوریز خواجہ اور جرمن سائنسدان ڈاکٹر فرینک پوسٹ برگ کی مشترکہ قیادت میں سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے کی۔ ساتھ ہی ساتھ اس تحقیق نے دنیا بھر میں دھوم مچا دی ہے اور اس طرح ڈاکٹر نوریز نے دنیا میں پاکستان کا نام فخر سے اونچا کردیا ہے.
گزشتہ سال سائنسدانوں نے کیسنی اسپیس کرافٹ کے ڈیٹا کو استعمال کرکے جانا تھا کہ انسلداس کی سطح کے نیچے سمندر میں زندگی کے لیے ضروری عناصر بشمول مالیکیولر ہائیڈروجن موجود ہیں۔
اب اس نئی تحقیق میں زیادہ بڑے اور زیادہ پیچیدہ نامیاتی مالیکیولز کو وہاں دریافت کیا گیا اور یہ خلائی زندگی کی تلاش کے حوالے سے انتہائی اہم پیش رفت قرار دی جارہی ہے.
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس دریافت نے ان کے 'ذہنوں کو گھما' کر رکھ دیا ہے۔
جرمن یونیورسٹی Heidelberg کے انسٹیٹوٹ آف جیو سائنسز کے لیے کام کرنے والے پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر نوریز خواجہ کا کہنا تھا ' ماضی میں کیسنی پہلے ہی ہلکے وزن کے نامیاتی مالیکیولز کو انسلداس میں دریافت کرچکا تھا، مگر وہ نامیاتی مالیکیول ہمارے دریافت کردہ پیچیدہ نامیاتی مواد کے مقابلے میں بہت چھوٹے تھے'۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ پہلی بار ہے کہ زمین سے باہر کسی خلائی مقام پر اس طرح کے بڑے اور پیچیدہ نامیاتی مالیکیولز کو دریافت کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر فرینک نے برطانوی روزنامے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ پیچیدہ نامیاتی مالیکیولز ضروری نہیں کہ رہائشی کے ماحول میں مدد دیتے ہوں مگر دوسری جانب یہ زندگی کے لیے ضروری ابتدائیہ ضرور ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے ہم نہیں جانتے تھے کہ زحل کے اس چاند میں یہ پیچیدہ نامیاتی کیمسٹری ہے یا نہیں، مگر اب ہم یہ جانتے ہیں۔
اس تحقیق کا مقالہ لکھنے والوں میں شامل کرسٹوفر گلین کے مطابق 'نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ انسلداس قابل رہائش دنیا ہے'۔
اس ٹیم نے انسلداس کے اس زیرسطح موجود سمندر کا ڈیٹا اس وقت اکھٹا کیا جب کیسنی آخری پرواز کے دوران وہاں سے نمونے اکھٹے کرنے میں کامیاب رہا۔
سائنسدانوں کے دریافت کردہ نامیاتی مالیکیولز کا حجم 200 ایٹمی یونٹس سے زیادہ ہے جو کہ میتھین سے 10 گنا سے زیادہ بھاری ہیں، یہ مالیکیولز ایسے اسٹرکچر پر مبنی ہیں جو کہ ممکنہ طور پر ہائیڈرو کاربن کی کراس چین ہوسکتا ہے۔
ڈاکٹر نوریز خواجہ کے مطابق 'سادہ منظرنامہ تو یہ ہے کہ یہ پیچیدہ نامیاتی مواد گرم اور ہائیڈروتھرمل طور پر متحرک چٹانی کور میں بنا اور پھر اوپر سمندر کی سطح میں منتقل ہوگیا، ابھی ہم تعین نہیں کرسکے کہ یہ پیچیدہ مواد بائیوٹک ہے یا نہیں، مگر اس دریافت سے نئے مواقع کھلے ہیں، بالکل ایسے جیسے زمین میں موجود ہائیڈرو تھرمل وینٹس، جو کہ زندگی کی کچھ اقسام کی وجہ سمجھے جاتے ہیں'۔
اس تحقیق کے نتائج جریدے جرنل نیچر میں شائع ہوئے۔
No comments:
Post a Comment